Foundation

Gurmitkal is an old and ideal place of Indian civilization where people of all caste & creed live in.  The total population of Gurmitkaal is approximately 25,000 in which Muslim population constitute approximately at 20-30%.  Gurmitkal is situated at 40 KM from district headquarter of Yadgir& lies between Karnataka and Telangana border.  The people of Gurmitkalaredispersed in nook & corner of India in search of their livelihood.  Gurmitkal was called cradle of education in olden times and it was well known that the people of Gurmitkal are well educated.  But since 10-15 years it has been noticed that there is reduction in education in Gurmitkal in general and Islamic education in particular.

In addition to this, Muslims in 140 villages surrounding Gurmitkal are economically and educationally very weak, particularly in the field of Islamic education.  In all most all villages mosques are coming up but they are facing the problem of Imams.  In some of the villages there was dominancy of Qadiyani sect also who were trying to rub the Islamic faith of these innocent muslims.

Therefore, to overcome all the above anomalies and to prepare the strong builders and servants of Islam who with their expertise of education & skill lighten the candle of education and remove the darkness of blasphemy particularly the Qadiyaniyat from these villages, the idea of establishing an Islamic madrasa came into existence.

That is why, keeping in all the above points in mind and with the experience &opinion of elders and with the enthusiasm of youngsters, an organization called ‘AnjumanFalahulMillat, Gurmitkal’ was founded in the year 2004 under which Madrasa Bab-ul-ilmTahfeezul Quran was established in the month of October 2004.

Location of Madarsa:- This madarsa is situated beside Govt. I.T.I. on Gurmitkal-Nazrapur road which is 1.5 Km from Gurmitkal.

Constructive Events of Madarsa :- The foundation stone of madrasa was laid on the donated land of AlhajHabeeb Abdul RahmanAlhamid by the noble hands of Moulana Abdul Raheem Sab Qureshi, Secretary All India Personal Law Board and MoulanaSulemanSikander Sab, vice president, Tameer-e-millat, Hyderabad on 15/12/2004.  In the said function AlhajQamarul Islam Minister of Municipal Administration and wakf, Govt. of Karnataka and JanabIqbal Ahmed Saradgi, Ex M.P. had also participated.

1. At first in 2005 bore well was dug at madrasa campus with the aid of Dr. Late Abdul Haq Sab.

2. In 2007 the construction work of three rooms and a hall, as per the need, was started which was also aided by Dr. Abdul Haq Sab.

3. In 2009, inauguration of constructed madrasa building was made by MoulanaMufti Azeemuddin Sab, head mufti, Jama-e Nizamia, Hyderabad, Moulana Mufti SadiqMohiuddin Sab, Hyderabad and Moulana Syed TanveerHashmi Sab, Bijapur.

4. In 2010, a boiler for hot water was installed with the financial aid of a well-wisher.

5. In 2011-12 the basement of boundary and some boundary as per the need was constructed.

6. In 2013-14: with the increase in strength of students, existing building was insufficient.  Therefore, extension was made from the amount in hand and also with the aid of some well-wishers.  There was addition of four rooms and a hall.  At the same time a mosque was also constructed with the financial aid of AlhajAsgaruddin sab and their relatives for the performance of namaz by the students.

7. On 25 May 2013 the inauguration of extended  building and the mosque was done by Moulana Mufti Azeemuddin Sab, head mufti, Jama-e Nizamia, Hyderabad, professor Mustafa Shareef Sab, director and Moulana Mufti Abdul Rawoof Sab, head Mufti, Darululoom, BargaheBandanawaz, Gulbarga in the function of annual dastarbandi of two Huffaz-e-karaam

8. On 18th June 2014 10th Annual Dastarbandi of Huffaz was organized in which inauguration of computer room was done by Iqbal Ahmed Engineer, Managing trustee, GouseKhamoshi Trust, Hyderabad.

9. constructed C.C. road from main road to the ground.

10. Web site of Madrasawww.babulilm.in is launched.

تاریخ مدرسہ :۔
گرمٹکال ایک قدیم اور مثالی ہندوستانی تہذیب کا مقام ہے۔ جہاں پر ہر مختلف طبقات کے لوگ رہتے ہیں۔ جس کی کل آبادی 25000ہے۔جس میں مسلمانوں کی آبادی20% تا30%ہے۔گرمٹکال کرناٹک کے ضلع یادگیر سے40 کیلو میٹر کے فاصلہ پر ریاست کرناٹک اور ریاست تلنگانہ سرحد پر واقع ہے۔یہاں کے لوگ تلاش معاش کے سلسلہ میں ہندوستان کے کونے کونے میں برسر روز گار ہیں ۔قدیم دور سے گرمٹکال تعلیم کا گہوارہ رہا ہے۔ اور یہ مانا جاتا تھا کہ ہیاں کے لوگ تعلیمی یافتہ ہوتے ہیں۔ لیکن پچھلے 10تا 15سالوں سے یہاں کے مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی دیکھی جارہی ہے۔ بالخصوص دینی پسماندگی ۔
اس کے علاوہ گرمٹکال کے اکناف اطراف تقریباََ 140دیہاتوں میں مسلمان معاشی اور علمی طور پر بہت کمزور ہیں خصوصاََ علم دین کے معاملے میں بہت ہی پسماندہ ہیں۔ان دیہاتوں میں تقریباََ جگہ مساجد ہو رہے ہیں۔ لیکن وہاں پر اماموں کا مسئلہ ہے۔ بعض دیہاتوں میں خادیانی فرقہ کا بھی دبدبہ تھا۔ جو ان معصوم اور پسماندہ مسلمانوں کے دین کو مٹانے کی کوشش کررہے تھے۔
اس لئے مدرسہ قائم کرنے کا مقصد مندرجہ بالا تمام پسماندگیوں کو دور کرنا اور یہاں سے ایسے دین کے معمار اور خادم تیار کرنا ہے۔جو اپنے علم و فن کی مہارت سے اپنے اپنے علاقوں میں خاص کر گرمٹکال کے اطراف واکناف دیہاتوں میں دین کی شمع روشن کرنا اور باطل کی ظلمتوں کو دور کرنا اور خاص کر خادیا نیت کو ان علاقوں سے ختم کرنا ۔
لہٰذا ان تمام حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے انجمن نوجوانان مسلم گرمٹکال نے بزرگوں کے تجربے و مشورے اور نوجوانوں کے جوش و جذبات سے 2004 میں انجمن فلاح الملت کی بنیاد ڈالی جس کے تحت اکٹوبر 2004 میں ہی مدسہ باب العلم تحفیظ القرآن قائم کیا گیا۔

تعارف مدرسہ:۔
معاشرہ کی اصلاح میں علم بنیادی حیشیت رکھتا ہے۔ علم عقائد واعمال . اخلاق و کردار اور افکار و خیا لات کی درستگی کاذریہ ہے تعلیم دین ہی انسان کو انسان بناتا ہے۔مدارس دینیہ علوم دینیہ کے مراکز ہیں ۔ان کی بقاء میں دین کی بقاء ہے۔
ابتداء میں ایک کرایہ کے مکان میں مدرسہ کا آغاز ہوا۔ جس میں30 طلباء اور 2مدرسین تھے ۔چونکہ گرمٹکال میں مدرسہ چلانا ایک نیا تجربہ تھا۔ اس لئے شروعات میں کافی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ جس میں مدرسین کا مسئلہ ، طلباء کے ضروریات کا مسئلہ وغیرہ ۔ چند سالوں کے بعد وہاں پر کچھ دشواریوں کی وجہہ سے مدرسہ کو مدینہ مسجد کالونی میں منتقل کیا گیا وہاں پر بھی چند دشواریاں رہی ۔ با لا خر 2009 میں ایک پُر فضا مقام پر مدرسہ کی پُر کشش ذاتی عمارت تعمیر کی گئی۔اور مدرسہ کو وہیں منتقل کیا گیا۔
مدسہ کی نئی عمارت میں طلبہ کے قیام و طعام کا ‘ بیت الخلاء کا ‘ گرم پانی کا ‘ کھیلنے کا ‘ صحت کی دیکھ بھال کیلئے ڈاکٹر عارفصاحب کا اور عصری تعلیم ( کنڑا ‘ انگریزی‘ حساب ‘ اُردو)کیلئے دو الگ مدرسین کا معقول انتظام کیا گیا ۔ جس سے طلباء کی تعداد 30سے بڑھکر 75 تک ہوگئی ۔ اور 2سے 4مدرسین کا انتظام کیا گیا ۔
طلبہ کی تعداد بڑھنے سے مدرسہ کی توسیع کرنا پڑا اور پھر الگ سے تین کمرے اور ایک ہال کی تعمیر عمل میں آئی ۔ اور ساتھ ہی ساتھ الحاج اصغر الدین صاحب اور ان کے متعلقین کے ذریعہ مدرسہ کی ہی جگہ پر ایک شاندار مسجد کی تعمیر ہوئی ۔جس کا افتتاح 2013 میں ہوا ۔ جس میں 3حفاظ کرام کی دستار بندی بھی عمل میںآئی ۔
الحمداللہ روز اول سے ہی مدرسہ کو بڑے ہی خوش اسلوبی اور وہی جوش و جذبہ کے ساتھ چلایا جارہا ہے۔ اتنے قلیل وقفے میں مدرسہ کو اس مقام پر پہنچانے کا سہر اللہ کا کرم کمیٹی سے جڑے حضرات کا جوش و جذبہ ، ان کی محنت اور انکی نیک نیتی ، بزرگوں کا مشورہ اور اہل خیر حضرات خصوصاََ الحاج ڈاکٹر عبدالحق صاحب اور الحاج جناب اصغرالدین صاحب کو جاتا ہے۔

مدرسہ کی ذاتی عمارت :۔
15ڈسمبر 2004 ء کو مولانا حبیب عبدالرحمن صاحب الحامد کی عطیہ کردہ زمین پر بدستِ مولانا عبدالرحیم صاحب قریشی سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، مولانا سلیمان سکندر صاحب نائب صدر تعمیر ملت حیدرآباد مدرسہ کا افتتاح وسنگِ بنیاد عمل میں آیا ۔ جس میں الحاج قمرالااسلام صاحب گلبرگہ سابقہ MP و وزیر حکومتِ کرناٹک اور الحاج اقبال احمد صاحب سرڈگی گلبرگہ سابقہM.P نے بھی شرکت فرمائی تھی ۔

* ۔ 2005ء میں مدرسہ کی زمین پر ڈاکٹر عبدالحق صاحب کے زریعہ سب سے پہلے بورویل ڈالی گئی۔
* ۔2007 ء میں حسبِ ضرورت 3کمرے اور ایک ہال کیلئے مدرسہ کا تعمیری کام ڈاکٹر عبدالحق صاحب کے ذریعہ شروع ہوا۔
 ۔2009ء میں بدستِ مفتی عظیم الدین صاحب صدرمفتی جامعہ نظامیہ حیدرآباد ، مولانا مفتی صادق محی الدین صاحب حیدرآباد اور مولانا سید تنویر ہاشمی صاحب بیجاپوری مدرسہ کے ذاتی عمارت کا افتتاح عمل میں آیا ۔اور اس موقع پر دو طلبہ کی دستاری بندی بھی عمل میں آئی۔
 ۔2010ء میں ایک صاحب خیر حضرت کے ذریعہ طلبہ کو گرم پانی کیلئے بوائلر کی تنصیب عمل میں آئی۔۔2011-12ء میں حسبِ ضرورت باونڈری وال کی تعمیر کی گئی جو ابھی زیرِ تکمیل ہے۔
 ۔2012-13ء میں طلبہ کی تعداد بڑھنے کے بعد یہ عمارت ناکافی ہونے لگی۔ لہٰذا مدرسہ کی جمع شدہ رقم اورصاحب خیر حضرات کے تعاون سے اس میں مزید توسیع کی گئی۔جس میں 4کمرے اور ایک ہال کا پھر سے اضافہ کیا گیا ۔ اور طلبہ کو نماز پڑھنے کیلئے جناب اصغرالدین صاحب اور ان کے متعلقین کے ذریعہ ایک شاندار مسجد کی تعمیر کروائی گئی۔
 ۔25مئی 2013 ؁ء کو مدرسہ کے سالانہ جلسہ ودستاربندی حفاظ کرا م میں توسیع مدرسہ اور مسجد کی افتتاح بدستِ مفتی عظیم الدین صاحب صدر مفتی جامعہ نظامیہ حیدرآباد ، پر وفیسر مصطفٰی شریف صاحب ڈاکٹر دائرتہ المعارف العثمانیہ حیدرآباد اورمفتی عبدالرؤف صاحب صدر مفتی دارالعلوم دینیہ بارگاہ بندہ نواز گلبرگہ عمل میں آئی ۔

۔18جون 2014 ؁ء کو دسواں سالانہ جلسہ ، دو حفاظِ کرام کی دستاربندی کمپیو ٹر روم کا افتتاح بدست اقبال احمد انجنیئر منیجنگ ٹرسٹی غوث خاموشی ٹرسٹ حیدرآباد عمل میں آیا۔اور روڈ کی تعمیر ہوئی۔اور مدرسہ کا ذاتی ویب سائٹ قائم کیا گیا ۔